خرید و فروخت کے متعلق سوالات

  • Admin
  • Dec 08, 2021

قسطوں‌ پر خرید و فروخت کے شرعی احکام کیا ہیں؟

قسطوں پر خرید و فرخت جائز ہے۔ یہ تجارت کی ایک جائز قسم ہے جس کے ناجائز ہونے کی کوئی شرعی وجہ نہیں۔ اصل میں ایک ہی سودا ہے جو نقد کی صورت میں کم قیمت پر اور قسط کی صورت میں قدرے زائد قیمت پر فروخت کنندہ اور خریدار کے ایجاب و قبول سے طے پاتا ہے۔ دونوں صورتیں چونکہ الگ الگ ہیں اور ایک میں دوسری صورت بطور شرط یا جزء شامل نہیں، لہٰذا یہ اُسی طرح جائز ہے جیسے ایک ہی منڈی کی مختلف دکانوں پر کسی شے کی قیمت میں فرق ہو سکتا ہے۔ یونہی منڈی، بازار اور پرچون کی دکان پر قیمت میں فرق ہوتا ہے، لیکن کوئی ایک سودا دوسرے سے منسلک نہیں ہوتا ہے بلکہ ہر سودا مستقل اور الگ الگ ہے تو گویا یہ جائز ہے۔

ایک اشکال

عَنْ اَبِي هُرَيْرَةَ رضی اﷲ عنه قَالَ نَهَی رَسُولُ اﷲِ عَنْ بَيْعَتَيْنِ فِي بَيْعَةٍ.

’’حضرت ابوہریرہ رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک بیع میں دو سودے کرنے سے منع فرمایا۔‘‘

احمد بن حنبل، المسند، 2: 174، رقم: 6628، موسسة قرطبة مصر

ابوداود، السنن، 3: 274، رقم: 3461، دار الفکر

ترمذي، السنن، 3: 533، رقم: 1231، دار احياء التراث العربي بيروت

مالک، الموطا، 2: 663، رقم: 1342، دار احياء التراث العربي مصر

نسائي، السنن الکبری، 4: 43، رقم: 6228، دار الکتب العلمية بيروت

اس ارشاد مبارکہ میں ’ایک بیع میں دو سودے‘ کرنے سے مراد بسا اوقات یہ لیا جاتا ہے کہ نقد فروخت پر ایک قیمت اور اُدھار فروخت پر دوسری قیمت لینا ہے اور اس کو جواز بنا کر قسطوں پر خرید و فروخت کا عدمِ جواز ثابت کرنے کی کوشش کی جاتی ہے، مگر امام ترمذی رحمہ اﷲ علیہ نے اس فرمان کی وضاحت کرتے ہوئے فرمایا ہے:

حَدِيثُ اَبِي هُرَيْرَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَالْعَمَلُ عَلَی هَذَا عِنْدَ اَهْلِ الْعِلْمِ وَقَدْ فَسَّرَ بَعْضُ اَهْلِ الْعِلْمِ قَالُوا بَيْعَتَيْنِ فِي بَيْعَةٍ اَنْ يَقُولَ اَبِيعُکَ هَذَا الثَّوْبَ بِنَقْدٍ بِعَشَرَةٍ وَبِنَسِيئَةٍ بِعِشْرِينَ وَلَا يُفَارِقُهُ عَلَی اَحَدِ الْبَيْعَيْنِ فَإِذَا فَارَقَهُ عَلَی اَحَدِهِمَا فَلَا بَاْسَ إِذَا کَانَتِ الْعُقْدَهُ عَلَی اَحَدٍ مِنْهُمَا.

قَالَ الشَّافِعِيُّ وَمِنْ مَعْنَی نَهْيِ النَّبِيِّ عَنْ بَيْعَتَيْنِ فِي بَيْعَةٍ اَنْ يَقُولَ اَبِيعُکَ دَارِي هَذِهِ بِکَذَا عَلَی اَنْ تَبِيعَنِي غُلَامَکَ بِکَذَا فَإِذَا وَجَبَ لِي غُلَامُکَ وَجَبَت لَکَ دَارِي وَهَذَا يُفَارِقُ عَنْ بَيْعٍ بِغَيْرِ ثَمَنٍ مَعْلُومٍ وَلَا يَدْرِي کُلُّ وَاحِدٍ مِنْهُمَا عَلَی مَا وَقَعَتْ عَلَيْهِ صَفْقَتُهُ.

’’حدیث ابوہریرہ رضی اﷲ عنہ حسن صحیح ہے، علماء کا اس پر عمل ہے۔ بعض علماء نے اس کی تفسیر یہ کی ہے کہ کوئی شخص کہے میں آپ کے ہاتھ پہ یہ کپڑا نقد دس روپے میں اور ادھار بیس روپے میں بیچتا ہوں اور کسی ایک سودے کو متعین کر کے جدا نہ ہو۔ اگر ایک سودے کا فیصلہ کر کے جدا ہو تو کوئی حرج نہیں۔

امام شافعی رضی اﷲ عنہ فرماتے ہیں حضور نبی اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک بیع میں دو سودوں سے جو منع فرمایا اس کی ایک صورت یہ بھی ہے کہ کہے میں اپنا یہ مکان تیرے ہاتھ پر اتنے روپے میں اس شرط پر بیچتا ہوں کہ تو مجھے اپنا غلام اتنی قیمت میں فروخت کرے۔ جب تیرا غلام مجھے مل جائے گا، میرا مکان تیرا ہو جائے گا۔ یہ ایسی بیع پر علیحدگی ہے جس کی قیمت معلوم نہیں اور دو میں سے کسی کو بھی معلوم نہیں میرا سودا کتنے پر طے ہوا ہے۔

ترمذی، السنن، 3: 533

امام کاسانی اس ارشاد نبوی صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم پر فقہی مؤقف بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

ان رسول اﷲ صلیٰ الله عليه وآله وسلم نهی عن بيعين في بيع وکذا إذا قال بعتک هٰذا العبد بالف درهم إلی سنة او بالف وخمس مائة إلی سنتين لان الثمن مجهول وقيل هو الشرطان في بيع.

وقد روي ان رسول اﷲ  صلیٰ الله عليه وآله وسلم نهی عن شرطين في بيع ولو باع شيئا بربح ده باز ده ولم يعلم المشتري راس ماله فالبيع فاسد حتی يعلم فيختار او يدع هکذا روي ابن رستم عن محمد لانه لم يعلم راس ماله کان ثمنه مجهولا وجهالة الثمن تمنع صحة البيع فاذا علم ورضي به جاز البيع لان المانع من الجواز وهو الجهالة عند العقد وقد زالت في المجلس.

’’بے شک رسول اﷲ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک سودے میں دو سودے منع فرمائے۔ یونہی جب یہ کہا میں نے تیرے ہاتھ یہ غلام سال تک ایک ہزار یا دو سال کے لئے ڈیڑھ ہزار میں بیچا کیونکہ قیمت نامعلوم ہے۔ اور کہا گیا ہے کہ اس کا مطلب ہے ایک سودے میں دو شرطیں لگانا۔

اور روایت ہے کہ رسول اﷲ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک سودے میں دو شرطوں سے منع فرمایا ہے۔ اور اگر کوئی چیز یہ کہہ کر فروخت کی کہ دس پھر دس کے منافع کے ساتھ اور خریدار کو اصل قیمت کا پتہ ہی نہیں تو یہ بیع فاسد ہے۔ جب تک قیمت معلوم کر کے اسے اختیار نہ کرے یا چھوڑ دے۔ ابن رستم نے امام محمد رحمہ اﷲ سے یہی مفہوم روایت کیا ہے۔ کیونکہ اصل قیمت کا علم ہی نہیں تو مال کی مقدار معلوم نہ قیمت اور قیمت کی جہالت سودا جائز ہونے میں رکاوٹ ہے۔ جب خریدار کو مال اور قیمت دونوں کا علم ہو گیا اور وہ اس پر راضی ہو گیا تو بیع جائز ہے۔ کیونکہ اس سودے کے جواز میں سودا کرتے وقت یہی جہالت تھی جو اسی مجلس میں ختم ہو گئی۔‘‘

علاء الدين الکاساني، بدائع الصنائع، 5: 158، بيروت، لبنان: دار الکتاب العربي

اس تفصیل سے یہ حقیقت پوری طرح واضح ہو گئی کہ نقد اور اُدھار کے لیے دو علیحدہ علیحدہ قیمتیں مقرر کرنے سے اس حدیث کی مخالفت نہیں ہوتی جس میں نبی اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک بیع میں دو بیع سے منع فرمایا ہے۔ جب خریدار اور فروخت کنندہ، نقد اور ادھار کی وضاحت کر کے جدا ہو جائیں اور کسی ایک صورت کا تعین نہ کریں تو اس صورت میں سودا کرنا جائز نہیں، کیونکہ اس میں نہ قیمت کا تعین ہوا نہ مبیع کا، تو دونوں کی لاعلمی جھگڑے کا سبب بنے گی۔ قسطوں کی تجارت میں ایسا نہیں ہوتا۔ وہاں بیع، قیمت اور مدت، ہر ایک کا تعین بروقت ہو جاتا ہے۔ کسی قسم کی جہالت باقی نہیں رہتی۔ اس طرح جب قیمت کا تعین ہو گیا، قسطیں اور ان کی شرح بھی متعین ہو گئی تو بیع ایک ہی ہے، دو نہ ہوئے اور ممانعت ایک بیع میں دو سودے کی ہے ایک کی نہیں۔

نقد اور ادھار میں فرق کے بارے میں علامہ علاؤ الدین کاسانی فرماتے ہیں:

لامساواة بين النقد والنسيئة لان العين خير من الدين والمعجّل اکثر قيمة من الموجل.

’’نقد اور ادھار برابر نہیں، کیونکہ معین و مقرر چیز قرض سے بہتر ہے اور قیمت کی فوری ادائیگی میعادی قرض والی سے بہتر ہے‘‘۔

علاء الدين الکاساني، بدائع الصنائع، 5: 187

 اُدھار بیچنے کی وجہ صورت میں اصل قیمت میں زیادتی کی وضاحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

لوشتری شيئا نسيئة لم يبعه مرابحة حتی يبيّن لان للاجل شبهة المبيع وإن لم يکن مبيعا حقيقة لانه مرغوب فيه الاتری ان الثمن قد يزاد لمکان الاجل.

’’اگر ایک چیز قرض پر خریدی، اسے فائدہ لے کر، اس وقت تک آگے نہ بیچے جب تک اس کی وضاحت نہ کر دے کیونکہ مدت، مبیع (بکاؤ مال) کے مشابہ ہے، گو حقیقت میں مبیع نہیں، اس لئے مدت کی رعایت بھی رغبت کا باعث ہوتی ہے، دیکھتے نہیں کہ مدت مقررہ کی وجہ سے کبھی قیمت بڑھ جاتی ہے‘‘۔

علاء الدين الکاساني، بدائع الصنائع، 5: 224

یعنی اُدھار بیچنے کی صورت میں شے کی اصل قیمت میں زیادتی کرنا جائز ہے، یہ سود نہیں، تاہم ادائیگی میں تاخیر پر جرمانہ عائد کرنا سود کے زمرے میں آتا ہے۔ بیع التقسیط (قسطوں پر خرید و فروخت) کے لیے ضروری ہے کہ ایک ہی مجلس میں یہ فیصلہ کرلیا جائے کہ خریدار نقد لے گا یا اُدھار قسطوں پر، تاکہ اسی کے حساب سے قیمت مقرّر کی جائے۔ اس شرط کے ساتھ قسطوں پر اشیاء کی تجارت کرنا اور اس تجارت میں کسی کی معاونت کرنا شرعاً جائز ہے۔

واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔

مفتی: محمد شبیر قادری

 

پرانا اسٹاک نئے ریٹ پر بیچنا کیسا؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

    جو مال آپ کے پاس رکھا ہوا ہے وہ آپ کا اپنا مال ہے اپنے مال کو کوئی شخص سستا بیچے یا مہنگا بیچے اس کا اسے اختیار ہے لیکن اتنی قیمت پر بیچیں کہ لوگوں کے لئے قابل برداشت ہو، بہت زیادہ مہنگا بیچنا اخلاقیات کے خلاف ہے۔ آپ اگر اپنا پرانا اسٹاک نئے مارکیٹ ریٹ پر بیچتے ہیں تو اس میں حرج نہیں۔ اعلیٰ حضرت امامِ اہلِ سنّت علیہ الرَّحمہ لکھتے ہیں:”اپنے مال کا ہر شخص کو اختیارہے چاہے کوڑی کی چیز ہزار روپیہ کو دے، مشتری کو غرض ہو لے ،نہ ہو نہ لے۔“

(فتاویٰ رضویہ،ج 17،ص98)

وَاللہ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم

 

شیئرز کے کاروبار کا حکم کیا ہے؟

جواب : شیئرز کا کاروبار درج ذیل شرائط  کے ساتھ جائز ہے:

1۔ جس کمپنی کے شیئرز خریدنا چاہتے ہیں، اس کا کاروبار حلال ہو، اگر کمپنی کا کاروبا غیر شرعی ہو تو اس کے شیئرز کی خرید وفروخت جائز نہیں۔

2۔ اس کمپنی کا کاروبار واقعۃً  شروع ہوچکا ہو اور اس کمپنی کی املاک  وجود میں آچکی ہوں، مثلا ً: عمارت اور مشینری وغیرہ وجود میں آچکی ہوں اور نقد اثاثے صرف پلاننگ  اور منصوبہ بندی تک محدود نہ ہوں۔ اگر کمپنی صرف منصوبہ بندی اور نقد اثاثوں تک محدود ہو اور کاروبار شروع نہ ہوا ہو تو شیئرز کو صرف ان  کی اصل قیمت ( Face Value)  پر خریدنا  یا بیچنا جائز  ہے، اس سے کم و بیش پر خریدنا  اور بیچنا جائز نہیں ۔

3۔ نفع و نقصان دونوں میں شرکت ہو، یعنی اگر کمپنی کو نفع ہو تو شیئرز کے خریدار بھی نفع میں شریک ہوں گے اور اگر نقصان ہو تو اپنے سرمائے کے تناسب سے نقصان میں بھی شریک ہوں گے۔

4۔ نفع فیصد  کے اعتبار سے  طے ہو، یعنی نفع کی ماہانہ یا سالانہ کوئی خاص رقم یقینی طور پر مقرر نہ ہو، بلکہ فیصد کے حساب سے نفع مقرر کیا گیا ہو، جو نفع ملے گا، اس میں سے اتنے فیصد کمپنی کا ہوگا اور اتنے فیصد شیئر ہولڈر میں تقسیم کیاجائے گا۔

5۔شیئرز خریدنے  میں یہ بھی ضروری  ہے کہ کمپنی  کا اصل کاروبار  حلال ہونے کے ساتھ ساتھ وہ ضمنی طور پر بھی کسی ناجائز کام میں ملوث نہ ہو اور اس ضمنی کام سے حاصل ہونے والی آمدنی کا تناسب اس کی مجموعی  آمدنی میں معتد بہ مثلا ً  پانچ فیصد   نہ ہو ( جیسا کہ اس کی پابندی  آج کل کے اسلامی  مالیاتی اداروں  میں کروائی جارہی ہے )، بصورت  دیگر شئیرز خریدنے والا اس ادارے  سے خریدے  کہ وہ کمپنی کو ناجائز اور حرام معاملات  کرنے سے  ہر طرح  منع کریگا، تحریری  طور پر بھی اور خصوصاً کمپنی کے سالانہ اجلاس میں بھی یہ آواز اٹھائے گا  کہ کمپنی ناجائز اور حرام معاملہ نہ کرے اور کم از کم  ہمارا سرمایہ کسی حرام اور ناجائز کاروبار میں نہ لگائے ۔

6۔شق نمبر5  کے پیش نظر  جب  کمپنی  سے سالانہ نفع وصول ہو تو شیئرز رکھنے والا اس کمپنی کی بیلنس شیٹ  میں دیکھے  کہ کمپنی نے اس ناجائز ضمنی معاملہ سے کتنے فیصد سرمایہ ناجائز کاروبار میں لگا کر نفع حاصل کیا ہے، پھر آمدنی کا اتنے فیصد حصہ اپنے حاصل  شدہ نفع سے صدقہ کردے۔

7۔شیئرز ہولڈر اس بات کا بھی اہتمام  کرے کہ جس کمپنی  کے شیئرز خریدے، اس کے مجموعی  سرمائے کے تناسب میں اس کمپنی کے سودی قرضوں کی مقدار بہت زیادہ ( مثلا تینتیس فیصد 33٪ سے زیادہ) نہ ہو۔

8۔ جو شیئرز خریدا جارہا ہو، اس کے پیچھے موجود خالص نقد اثاثوں (Net liquid assets) کی مقدار اس شئیر کی بازاری قیمت  (Market  value )سے کم ہو۔

9۔اگر شیئرز کو ان کی قیمت اسمیہ سے کم یا زیادہ پر خریدا یا فروخت کیا جارہا ہو تو شیئرز جس کمپنی  کے ہوں، اس کے پاس نقد اثاثوں (Current Assets ) کے ساتھ ساتھ ایک معتدبہ مقدار جامد اثاثے  بھی موجود ہوں، ( مثلا بیس فیصد یا اس سے زائد جامد اثاثے ہوں )

10۔ مروجہ غیر اسلامی  بینکوں اور انشورنس کمپنیوں، اسی طرح  شراب بنانے والی اور بنیادی طور پر سود کا کام کرنے والی کمپنیوں کے شیئرز خریدنا  بھی جائز نہیں ۔

11۔ شئیرز کی خریدفروخت  کرنے میں ایک شرط یہ بھی ہے کہ شیئرز خریدنے کے بعد  شیئر ہولڈرز ان شیئرز  پر قبضہ  کرے، اس کے بعد ان کو فروخت کرے ۔شیئرز پر قبضہ کئے بغیر انہیں آگے فروخت کرنا شرعاً درست نہیں، جس کی وضاحت  درج ذیل ہے ۔

شیئرز آگے فروخت کرنے میں قبضہ  کے  مسائل:

اسٹاک ایکسچینج  میں ڈے  ٹریڈنگ میں حاضر  سودے کی جو صورت رائج ہے، وہ یہ ہے کہ حاضر سودے میں سودا ہوتے ہی اس کا اندراج فوراً ہی KAT میں ہوجاتا ہے، جو اسٹاک ایکسچینج میں ہونے والے  سودوں کا کمپیوٹرائز ریکارڈ ہوتا ہے، لیکن آج کل ہر سودے  کے دو کاروباری دنوں کے بعد خریدار کو طے شدہ قیمت ادا کرنی ہوتی ہے اور بیچنے والے کو بیچے ہوئے، حصص کی ڈیلیوری  دینی ہوتی ہے ۔ ( جبکہ پہلے اس میں تین دن لگتے تھے )  جس کی صورت یہ ہوتی ہے کہ متعلقہ  کمپنی کے ریکارڈ میں سی  ڈی سی کے ذریعے خریدے گئے شیئرز خریدار کے نام منتقل کیے جاتے ہیں، اسٹاک ایکسچینج  کی اصطلاح  میں اس کو ڈیلیوری اور قبضہ کہا جاتا ہے۔

مذکورہ  صورت کا شرعی حکم یہ ہے کہ جب تک خریدے گئے، شیئرز  سی ڈی سی کے ذریعہ متعلقہ کمپنی کے ریکارڈ میں خریدار کے نام منتقل نہیں ہوجاتے، انہیں آگے فروخت کرنا شرعاً جائز نہیں، کیونکہ شرعاً کسی  بھی چیز کو آگے بیچنے کے لیے اس  پر قبضہ شرط ہے۔

اسٹاک ایکسچینج  کے مروجہ  طریق کار کے مطابق اگر چہ شیئرز خریدتے وقت KAT میں ان کا اندراج  ہو جاتا ہے، اور شیئرز کا نفع ونقصان  بالآخر خریدار  کو ہی پہنچتا ہے، لیکن چونکہ شئیرز کی خرید و فروخت درحقیقت کمپنی کے حصہ مشاع کی خرید وفروخت  ہے اور حصہ  مشاع کی  بیع میں محض نفع ونقصان  کے خریدار کی  طرف منتقل ہونے کو شرعی قبضہ قرار نہیں دیاجاسکتا  اور حصہ مشاع پر حسی قبضہ بھی ممکن نہیں، لہذا اس صورت میں قبضہ کے تحقق کے لیے تخلیہ  کا پایا جانا ضروری ہے اور اسٹاک  ایکسچینج کے موجودہ قواعد وضوابط  کے مطالعے سے یہ بات واضح  ہوتی ہے کہ سی ڈی سی کے ذریعے  کمپنی کے ریکارڈ میں شئیرز خریدار کے نام منتقل ہونے سے  پہلے تخلیہ نہیں پایا جاتا ہے، لہذا مذکورہ صورت میں سی ڈی سی  کے ذریعہ متعلقہ کمپنی کے ریکارڈ میں بیچے گئے شئیرز خریدار کے نام منتقل ہونے سے پہلے انہیں آگے فروخت کرنا بیع قبل القبض  ہے، جو کہ شرعاً جائز نہیں ہے۔

خلاصہ  یہ کہ حاضر سودے  کی صورت میں بھی خریدے گئے، شئیرز سی ڈی سی کے ذریعہ  متعلقہ کمپنی کے ریکارڈ یعنی ڈیلیوری سے پہلے آگے بیچنا جائز نہیں ہیں۔

12۔ فارورڈ سیل  (Forward Trading)   یا فیوچر سیل   (Future Trading ) کی جتنی صورتیں  اسٹاک ایکسچینج  میں رائج ہیں، وہ اپنی موجودہ شکل میں شرعا ناجائز ہیں۔  

13۔ اسٹاک ایکسچینج  میں رائج  بدلہ  کے معاملات  بھی بیع قبل القبض  اور دوسری شرط فاسد  ( یعنی زیادہ قیمت  پر واپس خریدنے کی شرط پر بیچنے ) کی بناء پر جائز نہیں ہیں۔

14۔  اسٹاک ایکسچینج  میں رائج  شئیرز کی بلینک سیل  ( Blank Sale ) اور  شارٹ سیل   ( Short Sale)  بھی شرعا ممنوع اور ناجائز ہے ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

دلائل:

کما قال اللہ تعالیٰ:

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ وَذَرُوا مَا بَقِيَ مِنَ الرِّبَا إِنْ كُنْتُمْ مُؤْمِنِينَ۔ فَإِنْ لَمْ تَفْعَلُوا فَأْذَنُوا بِحَرْبٍ مِنَ اللَّهِ وَرَسُولِهِ ۖ وَإِنْ تُبْتُمْ فَلَكُمْ رُءُوسُ أَمْوَالِكُمْ لَا تَظْلِمُونَ وَلَا تُظْلَمُونَ۔

(سورۃ البقرة، الایة: 279,278)

وفیہ ایضاً:

یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡۤا اِنَّمَا الۡخَمۡرُ وَ الۡمَیۡسِرُ وَ الۡاَنۡصَابُ وَ الۡاَزۡلَامُ رِجۡسٌ مِّنۡ عَمَلِ الشَّیۡطٰنِ فَاجۡتَنِبُوۡہُ لَعَلَّکُمۡ تُفۡلِحُوۡنَ ﴿۹۰﴾

(سورۃ المائدۃ، آیت: 90)

ولما فی الصحیح لمسلم:

عن جابرؓ قال: لعن رسول اللّٰہ ﷺ اٰکل الربا وموکلہ وکاتبہ وشاہدیہ ، وقال: ہم سواء.

(ج2، ص227)

کذا فی عمدۃ القاری:

الغرر ھو فی الاصل الخطر، و الخطر ھو الذی لا یدری أ یکون ام لا، و قال ان عرفۃ: الغرر ھو ما کان ظاھرہ یغر و باطنہ مجہول، قال و الغرور ما راأیت لہ ظاہرا تحبہ و باطنہ مکروہ أو مجہول، و قال الأزہری: البیع الغرر ما یکون علی غیر عھدۃ و لا ثقۃ، و قال صاحب المشارق: بیع الغرر بیع المخاطرۃ، و ھو الجہل بالثمن أو المثمن أو سلامتہ أو أجلہ۔

(ج8، ص 435)

کذا فی مصنف ابن ابی شیبہ:

عن ابن سیرین قال: کل شيءٍ فیه قمار فهو من المیسر".

(ج4، ص483، کتاب البیوع والاقضیہ، ط؛ مکتبہ رشد، ریاض)

کذا فی الشامیہ:

(قوله: لأنه يصير قماراً)؛ لأن القمار من القمر الذي يزداد تارةً وينقص أخرى، وسمي القمار قماراً؛ لأن كل واحد من المقامرين ممن يجوز أن يذهب ماله إلى صاحبه، ويجوز أن يستفيد مال صاحبه وهو حرام بالنص".

(ج6، ص403، کتاب الحظر والاباحۃ، ط : سعید)

وفیہ ایضاً:

والحاصل أنه إن علم أرباب الأموال وجب رده عليهم، وإلا فإن علم عين الحرام لا يحل له ويتصدق به بنية صاحبه

(ج: 5، ص: 99، ط: دار الفکر)

وفی بذل المجہود:

یجب علیہ أن یردہ إن وجد المالک وإلا ففي جمیع الصور یجب علیہ أن یتصدق بمثل ملک الأموال علی الفقراء۔

(ج: 1، ص: 359، ط: مرکز الشیخ أبي الحسن الندوي)

وفی الھندیۃ:

أما شركة العنان فهي أن يشترك اثنان في نوع من التجارات بر أو طعام أو يشتركان في عموم التجارات ولا يذكران الكفالة خاصة، كذا في فتح القدير، وصورتها أن يشترك اثنان في نوع خاص من التجارات أو يشتركان في عموم التجارات

(ج: 2، ص: 319، ط: دار الفکر)

وفیہ ایضاً:

كان المال منهما في شركة العنان والعمل على أحدهما إن شرطا الربح على قدر رءوس أموالهما جاز ويكون ربحه له ووضيعته عليه

(ج: 2، ص: 320، ط: دار الفکر)

وفیہ ایضاً:

وأن يكون الربح معلوم القدر، فإن كان مجهولا تفسد الشركة وأن يكون الربح جزءا شائعا في الجملة لا معينا فإن عينا عشرة أو مائة أو نحو ذلك كانت الشركة فاسدة، كذا في البدائع.

(ج: 2، ص: 302، ط: دار الفکر)

وفی الھدایۃ:

فصل: "ومن اشترى شيئا مما ينقل ويحول لم يجز له بيعه حتى يقبضه"

لأنه عليه الصلاة والسلام نهى عن بيع ما لم يقبض ولأن فيه غرر انفساخ العقد على اعتبار الهلاك.

(ج: 3، ص: 59، ط: دار احیاء التراث العربی)

 

واللہ تعالٰی اعلم بالصواب